پاس آتے ھوئے کتراتے نکل جاتے ہیں
وہ نیت ملنے کی کر پھر سے بدل جاتے ہیں
شمار اس کو کریں کیسے دوستوں میں اپنے
کہ جو نام وفا سن کر ھی جل جاتے ہیں
راز دل بھید ھے مگر اسکو تو ھے معلوم
کبھی وہ افشان کرین اور کبھی نگل جاتے ہیں
یار بھی وقت کے ساتھ چلتے رھتے ہیں
کبھی پروان چڑہتے اور کبھی پسل جاتے ہیں
عشق کی ٹھوکر ہی کچھ ایسی ھے اسد
کئی کھاکر گرتے ہین کئی سنبھل جاتے ہیں