زرا عمر رفتہ کو آواز دے گل اندام کو پھر سے سنوار دے
سنا نغمہ بانکپن وہ ساز دلربا یہ ہاتھ تھام پھر میرا ساتھ دے
نہ چھوڑ اس دہر میں یوں تنہا سنہری یادوں کے صحرا میں اتار دے
جیا پھر سے ملن کو ترسے سکھیوں کو میرا یہ پیغام دے
وہ پنگھٹ پے ان کے ریلے وہیں وقت کو زرا کوئ روک دے
سکھیو ں کے سنگ یہ میلے نہ غم نہ کوئ ہم کو روگ دے
انمبوا کے پیڑ پے یہ جھولے زرا ٹھر جا ان کو آنے تو دے
آج برسے گی بدلی انکی اکھیوں سے میرے لئے اتھرو انکے گرنے تودے
یادوں کے گھونگھٹ اتار دے یا تھوڑا سا وقت مجھ کو ادھار دے
زرا عمر رفتہ کو پھر سے آواز دے دلہن کو پھر سے آج سنوار دے
ڈولی کب سے سج کے کھڑی میرے انتظار میں
پیا اب تو پیار سے زمیں کی گود میں اتار دے