عہد وفا تو باعثِ آزار ہی رہا
اک دوست تھا جو شاملِ اغیار ہی رہا
اسکا نصیب ہوگئے سارے جہاں کے پھول
میرے نصیب میں تو فقط خار ہی رہا
قیمت بڑھا رہا تھا میں اپنے حروف کی
سو اس کا ذکر شاملِ گفتار ہی رہا
صحرا نشینی، آہ و بکا، طوفِ کوئے یار
دل ان رسومِ عشق سے بیزار ہی رہا
اس نے تو میری جان پہ کھل کر ستم کیے
پھر بھی کرم کا اسکے طلبگار ہی رہا
اپنی انا کا مجھکو نہایت غرور تھا
لٹکا چنانچہ سر یہ سرِ دار ہی رہا
میں چیختا رہا کہ خطاکار میں نہیں
پھر بھی ملامتوں کا سزاوار ہی رہا
پھیلی تھی خلقِ شہر میں کچھ ایسی بد دلی
مجھکو تو بات کرنا بھی دشوار ہی رہا