ایسے حیات کرب کی تفسیر ہو گئی
الٹی ہر ایک خواب کی تعبیر ہو گئی
رنگِ یقیں یوں غالبِ رنگِ گماں ہوا
ہر روز اک خیال کی تعمیر ہو گئی
ایسے ترے خیال سے نسبت رہی ہمیں
آنکھوں میں نام لیتے ہی تصویر ہو گٰئی
روشن چراغِ دل تھے کبھی سب کے بجھ گئے
ظلمت یوں سارے شہر کی تقدیر ہو گئی
بے ساختہ ہی لب پہ ترا نام آ گیا
دیوانگی یہ باعثِ تشہیر ہو گئی
اس کو عمیر چھوڑ بھی سکتے تھے ہم مگر
اپنی وفا ہی پاؤں کی زنجیر ہو گئی