عیاں تو لوگ خاموش بہت ہیں
بغور تفتیش یہ مدہوش بہت ہیں
ہر جگہ دل کی مُصرفی دیکھی مگر
کہیں اندر سے من فراموش بہت ہیں
رنجشیں، الجھنیں مکروہ ہیں سبھی
افسانوں کیلئے تو افسوس بہت ہیں
کوئی نہیں ٹھہرتا پل کی فرقت کو
ویسے تو گلیوں میں روش بہت ہیں
میں نے اپنی زحمت کا سینہ چیردیا
روح میں ایسے اور آغوش بہت ہیں
اپنی طبع میں شاید بے اعتدالی بڑہ گئی
ہر طرف محبت پہ دیکھو دوش بہت ہیں