غزل کی را ہ جو تخٔیل کو ہم نے دکھایٔ
نگاہِ شوق نے تصویرِ جانا خود بنایٔ
بڑی مدّت سے جنکی راہ سے میں منتقل تھا
پرانی راہ پہ ملنے کی چاہت کھیچ لایٔ
نظر بے چین پھر اُس راہ پہ کیا ڈھونڈتی ہے
شمع پروانے کو محفل میں آخر کھینچ لایٔ
بہت کچھ سونچ رکھّا تھا کہ ملنے پہ کہینگے
مگر بس اک جھلک نے میری ساری سود بھلایٔ
جو آے ٔ سامنے وہ میری پھر تو ہوش کیا تھا
لگا ایسا کہ جنّت سے اُتر کر ہو ر آیٔ
نظر کی شوخیاں چاہت کی میرے ہی لییٔ تھی
مگر جو بات کہنی تھی وہ مجھ سے کہہ نہ پایٔ
گلابی پنکھڑی سے ہونٹ پہ ایسا تبّسم
کہ جیسے جام میں آجاے کویٔ رسملایٔ
وہ تیری ظلف کی لٹ کا تیرے گالوں کا چھونا
وہ شوخی میری چاہت تھی جو ظلفوں نے نبھایٔ
نظر کے سامنے بیٹھی تھی میری جانِ جاناں
مگر پیاسی یہ نظریں ٔ اپنا دامن بھر نہ پایٔ
جو چاہا اُنسے دِل کی مدّعا بھی کچھ تو کہہ دے
نہ جانے کیا ہوا میری زباں کیوں لڑکھڑایٔ
ادھوری بات تھی اور دِل کے ارماں دِل میں ہی تھیں
کہ جانے کی گھڑی اُنکی میرے نزدیک آیٔ
بڑی مشکل سے فرقت کے لییٔ دِل کو منایا
چھُپایا آنکھ میں ہی اشک کی جو بوند آیٔ