غمِ فراق کا ڈر تلملائے ہیں کیا کیا
بدن میں آگ کسی کی لگائے ہیں کیا کیا
چھپی وفا کو چلو ہم بیان کر ڈالیں
نہیں ہے درد مجھے کچھ چھپائے ہیں کیا کیا
کہ وقت دور بہت کل نکل گیا ہوگا
یوں ہی ستاؤں اگر ہاتھ آئے ہیں کیا کیا
جو میری آنکھوں میں جھانکا ہے غور سے تم نے
بتا تو میری وفا ؤں کو بھائے ہیں کیا کیا
ذرا وہ چاند تو دیکھو کہ گھٹ گیا کتنا
جو حسن آج ہے اک روز ڈھائے ہیں کیا کیا
نظام نو میں وہی ٹھوکریں ہیں اس کا نصیب
زمانہ چال قیامت کی لائے ہیں کیا کیا
مزے سے کیا کوئی آگاہ ہو محبت کو
نہ جب تلک کہ ہو دل آشنائے ہیں کیا کیا
چھپائے دل میں مگر میں نے غم کے دریا ہیں
عجب نہیں کہ یہ نکلے صدا کہ ہائے ہیں کیا کیا
چمن نہیں ہیں مری زندگی میں صحرا ہیں
کہ بڑھ رہے ہیں جدائی کے سائے ہیں کیا کیا
گھمنڈ اس کا تو وشمہ اگرچہ ٹوٹ گیا
کسی کے ساتھ ترا نام آئے ہیں کیا کیا