غیر کے نام کی ہاتھوں پہ سجا کر مہندی
وہ مجھے یوں بھی جلاتا ہے دکھا کر مہندی
ایسی مہندی نہ میسر ہو کسی کو مولیٰ
جو کہ رنگ لاۓ کسی کو بھی رُلا کر مہندی
اس طرح بھی کبھی آتی ہے مجھے سوچ کہ میں
اس کے ہاتھوں سے مٹا دوں کبھی جا کر مہندی
یہ بھی تڑپاتی ہے دن رات مجھے سوچ اکثر
دے گیا کیوں وہ مجھے ہاتھ ملا کر مہندی
دھونے والے سے کبھی کوئ تو یہ بھی پوچھے
اس کو کیا ملتا ہے پیروں میں بہا کر مہندی
کاش اک بار تو کہہ دیتا وہ رخصت ہوتے
مجھ کو لے جاؤ مرے یار مٹا کر مہندی
تھی پسند اس کو اگر غیر کی مہندی باقرؔ
پھر مرا خون ہی لے جاتا بنا کر مہندی