میرے گریہ سے نہ آزار نہ کر
فاصلہ طے نئی دیوار نہ کر
ورنہ یہ قصہ بھلا ختم ہی کر
داستاں سے مرا کردار نہ کر
جو بھی تا خیر کا یہ سارا فساد
راہ افتادہ کو بیکار نہ کر
غم نہیں تخت کے کھونے کا
کب مرا ہونا بھی دستارنہ کر
جاگنا تھا مرے ہنگامہ ہستی کا
حشر برپا بھی دگربار نہ کر
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
ورنہ مر جانے میں تیار نہ کر
گوشۂ باغ ہوا خلد سے جو
آئینہ عکس ہے رخ یار نہ کر
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے سے انکار نہ کر