فقط خلوصِ محبت میں مارا جاؤں گا
میں اپنے ملک کی خدمت میں مارا جاؤں گا
نہیں میں چھوڑ کے جانے لگا وطن اپنا
ضرور اپنی ریاست میں مارا جاؤں گا
میں بے ضمیر عدالت سے بچ گیا تو پھر
محافظوں کی حفاظت میں مارا جاؤں گا
اگر ضمیر فروشوں کی بات نہ مانی
یقین جانو سیاست میں مارا جاؤں گا
اگر نہ اپنے نہج بدلے دیکھ لینا پھر
میں دشمنوں کی عداوت میں مارا جاؤں گا
یہ جانتا ہوں ملے گا نہیں کبھی انصاف
کہیں پہ جج کی عدالت میں مارا جاؤں گا
رقیب اپنے بنے دوست جان سے پیارے
میں دوستوں کی بغاوت میں مارا جاؤں گا
نہیں سنیں گے رعونت میں بات جب شہزاد
تو اپنے دور حکومت میں مارا جاؤں گا