قائم اقرار وفا پہ وہ رہا ہی کب ہے
مجھ کو اس ترک تعلق کا گلہ ہی کب ہے
تونے دیکھا ہی نہیں چاند کو عریاں شاہد
ورنہ پردے میں کبھی چاند رہا ہی کب ہے
وقفہ وصل کا ملا ہے تو ملا ہی کتنا
شب تنہائی کے اک پل کا صلہ ہی کب ہے
مسئلہ یہ نہیں کیسے ہوا ناطہ اس سے
ربط اس دل کا ترے غم کے سوا ہی کب ہے
لرزش لب سے ادا ہوتا ہے مفہوم نواز
حرف منت کش آواز ہوا ہی کب ہے