قدم وہاں چلتے ہیں جہاں سوچ کھینچ لے
لہروں کا بھی یہی سنگم جہاں موج کھینچ لے
آؤ کہ اطاعت گذاری کا بھی کچھ سوچیں
کیا پتہ کبھی ذمیواری کا بوجھ کھینچ لے
ان کناروں کے سفر سے دور بھی رہو
کھلی سانس کو پھر نہ تموج کھینچ لے
بارآوری نہیں بھی مگر امید کس نے چھوڑی
ہو سکتا ہے منزلوں کی کھوج کھینچ لے
جو خوشیوں کے پل ہیں تھم کے گذارلو
ایسا نہ ہو کہ کہیں پھر روج کھینچ لے
ہماری دعا کہ توُ صاحب ثروت رہے سنتوشؔ
خدا نہ کرے کہیں کوئی حوج کھینچ لے