قلب اور عقل
Poet: جہانزیب کنجاہی دمشقی By: جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی , بغداد عراقسائل قلب اک دن عقل سے ہوا
اپنے انداز گفتار میں کہنے لگا
کے کیا تمہیں عشق کی ہے کوئی خبر?
کے وہ رہتا ہے کہاں کدھر?
مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے
ہے تھوڑا سخت مگر بھلا لگتا ہے
کہا عقل نے مجھے تو اسکا پتہ نہیں
ویسے بھی سنا ہے اچھا نہیں
وہ جسے بھی ہوا مار دیتا ہے
زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
کسی کو سولی پر چڑھا دیتا ہے
کسی کو دریاؤں میں بہا دیتا ہے
مجنوں کا تم نے حال نہ دیکھا
لیلی کا واسطےکہاں کہاں نہ پھرا
ہیر رانجھے کی بھی داستاں نہ سنی
کے اس نے کیا کیا نہ سزا دی
زلیخا کو بھی اس نے بدنام کیا
عشق نے ہمیشہ یہی کام کیا
ابن علی کا قنبہ بھی لٹایا عشق نے
انہیں در بدر بھی پھرایا عشق نے
کہا قلب نے چپ ہو جا تم ابھی ناداں ہو
کبھی کبھی گہرائی سے بھی سوچ لیا کرو
یہ سن کر عقل سہم کر چپ ہوئی
اور دل کی باتیں سننے لگی
کیا کہا کے وہ اچھا نہیں ہے
مجھ سے پوچھ اس سا کوئی بھلا نہیں ہے
تھیک ہے زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
مگر وہی لازوال قرار دیتا ہے
سولی پر چڑایا مگر رضا کس کی تھی
منصور میں اناالحق کی صدا کس کی تھی
مجنوں اپنا آپ لٹا کر بھی ناملال تھا
وہ سب کچھ بھلا کر بھی ناملال تھا
عشق نہ ہوتا تو رانجھے کو فقیری کہاں ملتی
لامکاں کی سیر نہ کرتا دلگیری کہاں ملتی
عشق نے کب کہا تھا اپنے گھر کی قربانی دو
قاسم و اکبر کڑیل کی جوانی دو
عشق کی لگی گر زلیخا کو نہ لگتی
بادشاہ مصر یوسف تلک کہاں پہنچتی
سن جو کوئی عشق کی نظر ہو جاتا ہے
کسی کے واسطے گوارہ دربدر ہو جاتا ہے
عشق سے جو ربط رکھے اسے امر کر دیتا ہے
رتبہ ستاروں میں مثل قمر کر دیتا ہے
بندے کو خدا سے ملاتا ہے عشق
لامکان کی سیر کراتا ہے عشق
میری نظر سے دیکھو قرآن کی ہر بات عشق
قرآن تو قرآن رب کی ذات عشق
یہ سن کر عقل نے سر تسلیمِ خم کر دیا
اور اپنی عدالت سے اسے بے جرم کر دیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






