میں نے چاہ لیا تجھ کو‘چاہت کی حد تک
کہ ہوا کرب شروع‘ راحت کی حد تک
سوزِ جگر ہے مگر یہی زندگی ہے
تیرے غم سے مجھے لگاؤ‘صباحت کی حد تک
سوائے پیار تو کچھ بھی نہیں دل میں
تجھ سے شکوہ صرف‘ شکایت کی حد تک
انتقام کیا لے سکوں گی میں آخر
پیار ہی پیار ہے‘عادت کی حد تک
کہ میری سانسیں تیری سانسوں سے
فدا میں تجھ پہ ‘ ہلاکت کی حد تک
گزرے جو تم بن میرا جیون او ساتھی
مجھے اُس سے نفرت ‘ ندامت کی حد تک
لکھا گیا جو میرے مقدر میں عشق
مجھے تجھ سے محبت‘بغاوت کی حد تک
تیری صفتِ وفا‘ مجھ پہ سایہءزندگی
تیرے حُسن کی ستائش‘قیامت کی حد تک
کیا کیا زیب دے تجھے‘خُدا ہی جانے
میں لکھوں تجھ کو‘ سعادت کی حد تک