قیامت کے فتنے اٹھانے لگے ہیں
اداؤں سے دنیا مٹانے لگے ہیں
چھری دل پہ میرے چلانے لگے ہیں
وہ تیر نظر آزمانے لگے ہیں
مٹے گی غریبوں کی دنیا تو پھر سے
وہ دیکھو، انھیں ہوش آنے لگے ہیں
سر بزم غیروں کو وہ آج خود ہی
وفائیں میری کیوں سنانے لگے ہیں
جو پوچھا ہے، وعدہ وفا کا ہوا کیا
بگڑ کر وہ تیور دکھانے لگے ہیں
کسی طور چھوڑیں گے در ہم نہ تیرا
یہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں
جنھوں نے سنا حال بربادیوں کا
سر بزم آنسو بہانے لگے ہیں
چلے آؤ چھوڑو بھی اب یہ سنورنا
جنازا میرا اب اٹھانے لگے ہیں
ہوا مست و بیخود جہاں سارا رومی
وہ نظروں سے ساغر پلانے لگے ہیں