قید ہے جو دل میں اب تھا اسی کا راج بھی
ایک شخص درد تھا اور وہی علاج بھی
دیکھ لو میں خود کو بھی تو بدل نہیں سکا
حال تھا جو کل مرا بس وہی ہے آج بھی
عمر بھر جو چپ رہا جان ظرف تھا مرا
لفظ بھی سمجھ گیا تھا ترا مزاج بھی
لوٹ کر جو آ گیا پاس ہی بٹھا لیا
یوں ختم ہوا ہے اپنا یہ احتجاج بھی