حَبس میں تپتی آئی شام
لب پہ مچل گیا تیرا نام
نہیں نگاہوں میں کوئی اور
جب سے ہے دل میں تیرا قیام
محبت کیا ہے اس کے سوا
ایک کَسک سی بے نام
یہی رنگینی ہے محبت کی
دل و جگر ہیں خون آشام
جگر چھلنی اور سینہ زخمی
کیا خوب محبت کا انجام
اس ایک نگاہ کا مقتل دیکھو
لاکھوں دلوں کا قتل عام
قرار زیست خمار زیست
اس کی آنکھوں کا اک جام
قیس، فرہاد، قیصر، منصور
ایک محبت سینکڑوں نام
کیا خوب ہے معجزہ زیست و عدم
اے عشق سلام اے عشق سلام
بس یہی ہے محبت کا انجام
درد مسلسل درد مدام
کر لے حاصل کچھ اعمال
ہو نہ جائے زیست کی شام
کیسے کرے نباہ اکیلا
ایک دل لاکھوں آلام
اپنا درد ہے دوست کا درد
پئے جا قیصر درد کے جام