لبِ جو زندگی کی نبض گئی
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکواللبِ جو زندگی کی نبض گئی
اپنی تشنہ لبی کی نبض گئی
پاک سے اِک بدن کی خواہش سے
مجھ میں اِک متقی کی نبض گئی
اک محلہ تھا ہو گیا ویران
جب سے دیوانگی کی نبض گئی
شہر سے دشتِ پُرختن کے بیچ
قیس کی بے خودی کی نبض گئی
خاک ہو کر گلی سے جاتے دم
اپنی خوش قسمتی کی نبض گئی
میں ہر اِک یار سے ہوا مایوس
شوقِ وارفتگی کی نبض گئی
اتنا تاریک تھا مکانِ دل
صحن تک چاندنی کی نبض گئی
وقت گویا ٹھہر گیا ہے کہیں
شبِ ہجراں گھڑی کی نبض گئی
طنز نے زہر بھر دیا اندر
زیرِ لب چاشنی کی نبض گئی
مفتیوں! منہ نہیں دکھاؤ مجھے
میری نیکی بدی کی نبض گئی
زرد رنگت تھا جب ملا اُس سے
دم میں سنجیدگی کی نبض گئی
اُس گلی کے خراب حالوں میں
جانے کس آدمی کی نبض گئی
کیا بیاں ہو بھلا ملالِ خار
سرِ بالیں کلی کی نبض گئی
ہے خبر گرم اپنی رحلت کی
سنتا ہوں دوزخی کی نبض گئی
جب تجھے چاک سے اُٹھایا گیا
اُس گھڑی بت گری کی نبض گئی
عقل سے ماوراء رہیں مسکان
کیا سخن! شاعری کی نبض گئی
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






