Add Poetry

لبِ جو زندگی کی نبض گئی

Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوال

لبِ جو زندگی کی نبض گئی
اپنی تشنہ لبی کی نبض گئی

پاک سے اِک بدن کی خواہش سے
مجھ میں اِک متقی کی نبض گئی

اک محلہ تھا ہو گیا ویران
جب سے دیوانگی کی نبض گئی

شہر سے دشتِ پُرختن کے بیچ
قیس کی بے خودی کی نبض گئی

خاک ہو کر گلی سے جاتے دم
اپنی خوش قسمتی کی نبض گئی

میں ہر اِک یار سے ہوا مایوس
شوقِ وارفتگی کی نبض گئی

اتنا تاریک تھا مکانِ دل
صحن تک چاندنی کی نبض گئی

وقت گویا ٹھہر گیا ہے کہیں
شبِ ہجراں گھڑی کی نبض گئی

طنز نے زہر بھر دیا اندر
زیرِ لب چاشنی کی نبض گئی

مفتیوں! منہ نہیں دکھاؤ مجھے
میری نیکی بدی کی نبض گئی

زرد رنگت تھا جب ملا اُس سے
دم میں سنجیدگی کی نبض گئی

اُس گلی کے خراب حالوں میں
جانے کس آدمی کی نبض گئی

کیا بیاں ہو بھلا ملالِ خار
سرِ بالیں کلی کی نبض گئی

ہے خبر گرم اپنی رحلت کی
سنتا ہوں دوزخی کی نبض گئی

جب تجھے چاک سے اُٹھایا گیا
اُس گھڑی بت گری کی نبض گئی

عقل سے ماوراء رہیں مسکان
کیا سخن! شاعری کی نبض گئی

Rate it:
Views: 360
02 Aug, 2014
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets