پلکوں پہ تیری آس کے کچھ دیپ جلا کے
لو جا رہا ہوں آج میں لمحوں کو رلا کے
ٹھہرو میں گئے وقت سے ڈھونڈوں تیرا وجود
کچھ بھول سا رہا تھا میں آداب دعا کے
تم نے بھی تو جا کر کبھی مڑنا نہیں سیکھا
کچھ میرے ارد گرد بھی ہیں کوہ انا کے
ہر پھول پہ بکھری ہیں تمنا کی کرچیاں
یہ کون گیا باغ میں کچھ اشک بہا کے
کیا مجھ سے پوچھتے ہو جوانی کا خلاصہ
اک لمحہ گیا ہے کئی صدیوں کو بیتا کے
اے باد تیز وتند یہ ساحل کو بتا دو
میں آ رہا ہوں موج کے کچھ قرض چکا کے
وہ بے رخی وہ طنز وہ انداز تغافل
کیا کیا نہ ملا حسن کو ہمراز بنا کے
لمحات جو تحفے میں تمہیں پیش کئے ہیں
روؤ گے پھوٹ پھوٹ کے سینے سے لگا کے