دوستو لمحہ ظلم کا ہم سے گزر گیا
درد نہ دل کے زخم کا مگر گیا
ڈھونڈا بہت اسے ہر جگہ ہم نے
کوئی کہے ادھر کوئی کہے ادھر گیا
جو صاف تھا ہر زخم سے دل میرا
وہی دل آج زخموں سے بھر گیا
گرجے جو بادل اچانک آسمان پر
گرج سے بادلوں کی صنم ڈر گیا
تھا چہرے پر جو غصہ ان کے شاکر
یہ غصہ بھی رفتہ رفتہ اتر گیا