لمحہ وہ تیری یاد کا ایسے گزر گیا
جیسے کہ پھول شاخ سے ٹوٹا بکھر گیا
کل چھانو مل سکے گی سبھی کو یہ سوچ کر
جس نے لگائے پیڑ وہ بوڑھا کدھر گیا
جو پتھروں کے بدلے میں دیتا تھا پھل مجھے
دور خزاں بتا تو کہاں وہ شجر گیا
قائم ہے دل میں آج بھی اڑنے کا حوصلہ
صیاد وقت لاکھ مرے پر کتر گیا
دھڑکن سنائی دیتی تھی ہر ایک لفظ میں
کیا جانے شاعری سے کہاں وہ ہنر گیا