سمجھوں میں کیسے، لگتا ہے وہ نصاب جیسا اک سوال اٹک کے رہ گیا ہے حساب جیسا مانا کہ میری چاہت میں وہ دیوانہ نہ ہوگا پھر کیوں پڑھتا ہے مجھ کو وہ کتاب جیسا جاوید دل کی گہرائیوں میں بس گیا وہ شخص مہکتا ہے میرے دل میں وہ کھلتے گلاب جیسا