لہو سے ہو گی یہ تاریخ رقم یارو
بے سبب ٹوٹ پڑا ہے جو ستم یارو
دوست بن کر جو بیٹھا ہے میرے سینے میں
چھین لے گا وہی ایک دن میرے دم یارو
اب کسی صورت وہ قائل نہیں ہوتا مجھ سے
راز دے بیٹھے ہیں اس کو کوئی ہم یارو
اس کے چہرے کے تبسم سے معلوم ہوا
توڑنے والا تھا دل کا کوئی محرم یارو
یہ ہے الفت کی جزا تو سزا کیا ہے
ایسے لگتا ہے کہ کیا ہے کوئی جرم یارو
بھول جاتے ہیں تو یاد چلی آتی ہے
بھلا بت خانے میں کب بستا ہے حرم یارو