اس کا اپنے پن سے مجھ کو دیکھنا اچھا لگا
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
ایک مدت بعد کھولی میں نے بوسیدہ کتاب
اس کے اندر پھول اک رکھا ہؤا اچھا لگا
بے کلی اس مرتبہ جب دل کی حد سے بڑھ گئی
ماں کے خط کو چوم کر پھر سے پڑھا اچھا لگا
کچھ بھی کہتا ہو نجومی ہاتھ میرا دیکھ کر
کاتبِ تقدیر کا لکھا ، سدا اچھا لگا
معاملے میں نے رکھے اپنے خدا کے سامنے
پھر وہاں سے جوہؤا، وہ فیصلہ اچھا لگا
ایک عادت تھی بُری اس کی مجھے ہی گھورنا
وہ بُرا ہوکے بھی جانے کیوں مجھے اچھا لگا
آئینہ بھی تاب کیا لائے مرے محبوب کی
دیکھ اس کو آئینے کا ٹوٹنا اچھا لگا
مولا میری زندگی میں نور تیرے نور سے
جو دیا تُونے دیا ، جو کچھ دیا اچھا لگا
بے کلی بھی مٹ گئی ، دائم سکوں بھی مل گیا
آج پھر سے رب کے گھر میں بیٹھنا اچھا لگا
دائرے کی شکل میں جیسے ہو مفتی محوِ رقص
نرم سی اسکی کلائی میں کڑا اچھا