تم مسکراےَ مُنحرف ادب و لحاظ ہوا
ارمانوں کا سمندر یکسر بے لگام ہوا
ہوش سے قاصر نتائج سے بے خبر
عشق و حسرت میں تمہاری زلفوں کا اسیر ہوا
اب مجھے تم سے وابستگی جائز لگے
ایسے رشتے کی زنجیر میں جکڑا ہوں
خود پر کوئی بس نہیں نہ کوئی تدبیر کارگر
بے خود ٹکرانے کو سارے سماج سے قائل ہوا
کچھ توجہ ملے جو تیری دل کو قرار آےَ
ننگے پاؤں ہوں مُسافت بہت دور کی ہے
ہمت و استقلال اگرچہ کم نہیں میرے ہمدم
تیری بے رُخی کی سوچ سے میسر خوف ہوا
سراب کی سی کیفیت تھی مسافر میری حقیقت
بے سر و سامان بھٹکنا تھا میری قسمت
زندگی سے نہ لگاؤ نہ کوئی خواہش کی زنجیر
تم آۓ میرے آنگن میں خوشیوں کا بسیرا ہوا