اک مسئلہ ہے جو سمجھ نہیں آتا
تجھے دیکھتے ہی کیوں میری مسکان نکلی
ہر بار درد ہوا ۔ ہر بار جان نکلی
ُاسے الوادع کہتے ہی میری شان نکلی
وہ خاموش مجھے دیکھ رہا تھا جانے تک
ُاسے کیا معلوم پروں تلے میری زمین نکلی
ہر کوئی سنا رہا تھا محبتوں کی کہانیاں
میرے منہ سے تو اپنی ہی داستان نکلی
قلم کی نوک ہے جو درد کو لکھ دیتی ہے
میرے اندر میری روح ہی پیشمان نکلی
چلو کہیں دور چلے جایئں یہ جہاں چھوڑ کر
نجانے کیوں قدم قدم پر دکھوں کی دکان نکلی
ہجر کے لحموں میں خوشی کہاں سے لاؤں
مجھ تو میری محبت ہی پریشان نکلی