مجھ سے بھی درد دل کا مداوا نہ کر ابھی
جینے کا مجھ سے بھی کوئی دعوٰی نہ کر ابھی
شاہد مرے نصیب میں تیرہ شبی رہے
دل کے چراغ سے جو اجالا نہ کر ابھی
اپنے لہو سے تیری بچاؤں گی زندگی
وعدہ مرے طبیب کا ایفا نہ کر ابھی
اس نے مری نگاہ میں دیکھا ہے اپنا پیار
لیکن کسی طرح سےاندھیرا نہ کر ابھی
اس کو ہے کیا پتا کہ خزائیں بھی ہیں امر
آیا ہے ملنے آج بہانہ نہ کر ابھی
نظروں کے آسماں سے میں گر تو پڑی مگر
سوچا تھا اس نے جو وہ تماشا نہ کر ابھی
ملتی نہیں ہے منزلِ مقصود جب تلک
مجھ سے کبھی ضمیر کا سودا نہ کر ابھی
ٹھہرو ذرا میں روح کی چادر سمیٹ لوں
تیرے بغیر کچھ نہیں تنہا نہ کر ابھی
میں نے نکلنا بار ہا چاہا مگر یہاں
چشمِ خیال میں ترا گریہ نہ کر ابھی
ڈستا رہا ہے سانپ کی صورت حیات کو
وشمہ یہ میرے پاؤں کی پیڑیا نہ کر ابھی