مجھ کو وحشت ہوئی مرے گھر سے
رات تیری جدائی کے ڈر سے
تیری فرقت کا حبس تھا اندر
اور دم گھٹ رہا تھا باہر سے
جسم کی آگ بجھ گئی لیکن
پھر ندامت کے اشک بھی برسے
ایک مدت سے ہیں سفر میں ہم
گھر میں رہ کر بھی جیسے بے گھر سے
بارہا تیری جستجو میں ہم
تجھ سے ملنے کے بعد بھی ترسے