مجھ کو چھوڑے جارہے ہو میرے گھر کے سامنے
یوں مجھے رسوا نہ کیجے ہر بشر کے سامنے
تیرے آنے سے لگا یوں مجھ کو میرے ہمسفر
چاند آیا ہو فلک سے جو اتر کے سامنے
آج آؤ اس طرح جیسے کہ پہلی بار تم
آ گئے تھے بے خیالی میں سنور کے سامنے
تیری آنکھیں اس طرح اتنی حسیں ہیں کیا کہوں
مست ہو کے گر پڑا ہوں میں بکھر کے سامنے
مجھ سے تنہا روٹھ کر تنہائیوں میں جا بسا
ڈھونڈ کر لائے اسے کوئی نظر کے سامنے