لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر الفاظ نہیں آتے
مجھے اُس ہم سخن سے انداز نہیں آتے
کہنے کو حسن درحقیقت ماہِ تمام ہے وہ
ہوں تو میں بھی مغرور مگر اُس جیسے ناز نہیں آتے
اکثر ڈر جاتے ہیں ان ہوا کے تھپیڑوں سے
مگر ہم چاہنے والے تو عشق سے باز نہیں آتے
کہتا تھا مجھے کوئی چاہے میری زات سے ہٹ کر
مگر اس شمع کو رکھنے پروانوں سے راز نہیں آتے
گلہ اُس سے کیا کرنا یہ اپنا اپنا دستور ہے لیکن
چاہت میں کچھ بھی چھپانا کہ الفاظ نہیں آتے