جب میں چھوٹا سا بچہ تھا
جب بول بھی نہ سکتا تھا
جب چلتا تھا گِر جاتا تھا
جب زار و زار رونے لگتا تھا
ڈوری آتی تھی بے چینی میں
چوم کے ماتھا گلے لگا کے
بسم اﷲ جاؤں واری واری
میرے زخموں کو چوم کے پھر
مرہم لگایا کرتا تھی وہ
جب لَب بھی پورے نہ کھلتے تھے
جب رونے کے سیوا کچھ نہ آتا تھا
وہ ساری باتیں سمجھ جاتی تھی
کب پینا مجھے کب کھانا ہے
کب سونا مجھے کب نہانا ہے
خواب پتہ بھی نہ تھے جن آنکھوں کو
اُن آنکھوں کے خواب بُنتی تھی
گھر کے آنگن میں کھیلتے کو
دیکھ دیکھ کے جو ہنستی تھی
تو دل ہی دل میں سوچتی تھی
میرا بیٹا بڑا جب ہو جائیگا
جب اَفسر بڑا کوئی بن جائیگا
کتنا پیارا لگے گا پھر ہائے!
جو بیٹھی بیٹھی ناجانے کتنے
خوابوں کے نگر گزر جاتی تھی
سوچ کی ساری فکروں میں
بس میرا ہی خیال رہتا تھا
کتنا اچھا تھا بچپن میرا وہ
آغوشِ ممتاں میں نہالؔ رہتا تھا
اب بولنا بھی سیکھ گیا ہوں میں
اب ڈورتا ہوں گھوڑوں کی مانند
ماں کے پیار کو پیچھے چھوڑ
میں بہت دور نکل آیا ہوں
اب ہر پل یہی سوچتا ہوں
کوئی رہبر آئے کوئی مسیحا آئے
ہاتھ پکڑ کے بچپن میں لے جائے
شجرِ جنت کی اُسی چھاں کے پاس
مجھے جانا ہے پھر ماں کے پاس
مجھے جانا ہے پھر ماں کے پاس
Love you maa ji