مجھ کو تو شوقِ شیریں بیاں اب نہیں رہا
وہ عالمِ جنوں کا سماں اب نہیں رہا
وہ دن تھے تیرے قرب کے لمحوں کی تھی اسیر
موسم حسیں یہ دل بھی جواں اب نہیں رہا
کھلنے لگے ہیں سوچ کے غنچے بہار میں
راہوں میں میری دورِ خزاں اب نہیں رہا
اب جل چکے ہیں آنکھ کی مستی کے سلسلے
بکھری پڑی ہے راکھ ، دھواں اب نہیں رہا
ہر سمت دیکھے موت کے قدموں کے ہیں نشاں
اس زندگی کا مجھ کو گماں اب نہیں رہا
وشمہ وہ میرے درد کا درماں بھی کیا بنے
آنکھوں میں تشنگی کا نشاں اب نہیں رہا