مجھے ڈر ہے محبت میں پرایا نہ کرے
میرے پاس رہے چھوڑ کے جایا نہ کرے
سہوں کیسے ہنس کے بے رخی اُسکی
اُسے کہہ دو کہ سر ِمحفل رُلایا نہ کرے
وفا کرتا ہے تو احساں نہیں کرتا مجھ پر
یہ محبت کا تقاضہ ہے، جتلایا نہ کرے
بیٹھ کر سامنے میرے بات اوروں کی کرے
یہ گوارہ نہیں مجھے ایسے جلایا نہ کرے
کرتے ہیں شکائت مجھ سے دنیا والے
میری باتیں وہ لوگوں کو سنایا نہ کرے
درد کے مارے جاں سے ہی نا گُزر جائیں
وہ یوں اپنی نظروں سے گرایا نہ کرے
غم یہ نہیں رضا کہ رُلاتا ہے وہ مجھے
رنجھ اِس بات کا ہے کہ ہنسایا نہ کرے