مجھے کہتے ہیں محبت
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaپرندہ ، ہوتی تو اڑ کے آ جاتی
پر ، ہوتی تو گر کے آ جاتی
لکیر ، ہوتی تو ہاتھ میں آ جاتی
تعیبر ، ہوتی تو خواب میں آ جاتی
خواب ، ہوتی تو نیند میں آ جاتی
خیال ، ہوتی تو سوچ میں آ جاتی
ہوا ، ہوتی تو جھوم کے آ جاتی
بجلی ، ہوتی تو گرج کے آ جاتی
ستارے ، ہوتی تو جگمگا کے آ جاتی
چاند ، ہوتی تو شرما کے آ جاتی
خشبوں ، ہوتی تو بکھر کے آ جاتی
موج ، ہوتی تو لہرا کے آ جاتی
چھاؤں ، ہوتی تو دھوپ میں آ جاتی
بارش ، ہوتی تو برسات میں آ جاتی
تمنا ، ہوتی تو خواہش میں آ جاتی
پانی ، ہوتی تو پیاس میں آ جاتی
شمع ، ہوتی تو امید میں آ جاتی
عکس ، ہوتی تو آئینے میں آ جاتی
دولت ، ہوتی تو پیسوں میں آ جاتی
چیز ، ہوتی تو قیمت میں آ جاتی
خاموشی ، ہوتی تو تنہائی میں آ جاتی
ادب ، ہوتی تو احترام میں آ جاتی
مذہب ، ہوتی تو ایمان میں آ جاتی
دھڑکن ، ہوتی تو دل میں آ جاتی
دل ، ہوتی تو جسم میں آ جاتی
موت ، ہوتی تو زندگی میں آ جاتی
پر میں تو ، ان دیکھا احساس ہوں
میں تو ہر روح کے ساتھ ہوں
مجھے کہتے ہیں محبت
اس لیے تو میں سب سے خاص ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






