مجھے ہےعشق گلابو ں سے اور کتابوں سے
گذُر چکی ہوں اگرچہ کییٔ عذابوں سے
جو نوکِ خار پہ رہ کے بھی مسکراتے ہیں
ملا ہے عزم نیا مجھ کو اُن گلابوں سے
جو چپکے چپکے مِرے دھیان میں چمکتے ہیں
ملے گی روشنی مجھ کو اُن آفتابوں سے
ہم اپنے آپ کو اب اور کتنا دھوکا دیں ؟
بجھی ہے پیاس کسی کی کہاں سرابوں سے
ہیں زندگی کے کییٔ اور مرحلے باقی
تراش کویٔ تصور نہ میرے خوابوں سے
میں کیا سوال کروں، جھوٹ ہے تری عادت
نہ ہوگی میری تشفی ترے جوابوں سے