آئینِ فقر کی بالا دستی کے لیے
بھیجا گیا ہمیں فاقہ مستی کے لیے
انصاف کیا کیا میری ہستی کے لیے
وہ اوج کے لیے اور میں پستی کے لیے
برقِ نگہ جو کوندی ہم نے چھپا لے تھے
کچھ بجلی قمقمِ رختِ ہستی کے لیے
غالب سے پوچھے کوئی ماہیتِ شراب
کیا بادہ خواری ہے عیش و مستی کے لیے
پھر منقسم دو دل دے کے بھیجنا تھا یاں
اک دل ترے لیے اور اک بستی کے لیے
کیا کیا جلایا ہے ہم نے جلدِ وصل کو
معدوم اک ترے داغِ ہستی کے لیے