آواز دے کر آج یہ کس نے بلا لیا
بجھتا ہوا چراغ تھا پھر سے جلا لیا
مانند اک شجر کے کبھی میں کھڑا تھا جو
دیمک کی مثل مجھ کو محبت نے کھا لیا
ہم نے جو ان کا نام لیا کیا گناہ کیا
کیوں ہاتھ میں سبھی نے ہے پتھر اٹھالیا
جیتے جی ہم سے آکے کبھی مل نہ وہ سکا
کاندھے پہ آج اس نے جنازہ اٹھالیا
حجت تھیں جتنی درمیاں وہ بھی ختم ہوئیں
سینے سے اپنے آج جو ہم کو لگا لیا
ایسا تھا وہ چراغ جو طوفاں سے لڑ گیا
اس کو خود اپنے گھر کی ہوا نے بجھا لیا
کل تک جہاں تھے ڈیرے محبت کے ہر جگہ
نفرت نے آج اس کو ٹھکانہ بنا لیا