محبت اور حُجت کو بے پناہیوں میں ڈھونڈو
ایک شاعر کا وجود تو تنہائیوں میں ڈھونڈو
بے داغ ہو جائے گی بُت تراشی بھی کہیں
اِس سنگتراشی کو اگر سچایوں میں ڈھونڈو
رہو حدود عجلت سنجیدگی کی بات ہے
اپنے تقدس کو ہمیشہ اوچایوں میں ڈھونڈو
زندگی کی ہر راہ تمہارے ہمراہ ہی ہوگی
بھٹک کر خود کو کچایوں میں ڈھونڈو
حیات پارسائی تھی بکھر گئی تب تو
تہذیب کہتی ہے مجھے اِکایوں میں ڈھونڈو
یوں بندگی پہ سنتوشؔ بہتان مت ڈالو
عظیم عبادتوں کو اب اَچھایوں میں ڈھونڈو