محبت اِک سمندر ہے ، ذِرا سے دِل کے اَندر ہے
Poet: شہزاد قیس By: Shahzad Qais, لاہورمحبت اِک سمندر ہے ، ذِرا سے دِل کے اَندر ہے
ذِرا سے دِل کے اَندر ہے مگر پورا سمندر ہے
محبت رات کی رانی کا ، ہلکا سرد جھونکا ہے
محبت تتلیوں کا ، گُل کو چھُو لینے کا منظر ہے
محبت باغباں کے ہاتھ کی مِٹّی کو کہتے ہیں
رُخِ گُل کے مطابق خاک یہ سونے سے بہتر ہے
جہانِ نو ، جسے محبوب کی آنکھوں کا حاصل ہو
فقیہہِ عشق کے فتوے کی رُو سے وُہ سکندر ہے
نہیں ترتیبِ آب و خاک و باد و آگ سے جیون
ظَہُورِ زِندگانی کو ، محبت اَصل عُنصر ہے
کوئی دُنیا میں نہ بھی ہو ، پہنچ میں ہے محبت کی
بدن سے ماوَرائی ہے ، محبت رُوح پرور ہے
محبت ہے رَمی شک پر ، محبت طوفِ محبوبی
صفا ، مروہ نے سمجھایا ، محبت حجِ اَکبر ہے
محبت جوئے شیرِ کُن ، محبت سلسبیلِ حق
محبت اَبرِ رَحمت ہے ، محبت حوضِ کوثر ہے
اَگر تم لوٹنا چاہو ، سفینہ اِس کو کر لینا
اَگر تم ڈُوبنا چاہو ، محبت اِک سمندر ہے
سنو شہزاد قیس آخر ، سبھی کچھ مٹنے والا ہے
مگر اِک ذات جو مشکِ محبت سے معطر ہے
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






