محبت چیز کیا ہے؟
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaنہ جینے دیتی ہے
نہ مرنے دیتی ہے
محبت چیز کیا ہے؟
محبت چیز کیا ہے؟
رُلا لیتی ہے
سزا دیتی ہے
محبت چیز کیا ہے؟
محبت چیز کیا ہے؟
دُؤر جائوں تو پکارتی ہے
پاس آئوں تو مارتی ہے
مسکرائوں جو میں
جل جاتی ہے
اُداس بیٹھو تو
مذاق اُڑاتی ہے
دیرے دیرے سے
پاس آتی ہے
تیزی تیزی سے درد
دے جاتی ہے
کیسی پہیلی ہےیہ
سُلجھتی جو نہیں
یُؤں تو کسی سے یہ
اُلجھتی ہی نہیں
جس کے پیچھے پڑ جاتی ہے
زمانے سے بے خبر کر جاتی ہے
بارش کے قطرے کے جیسی ہے محبت
چُھونے جو نہیں دیتی
بھگو بھی جاتی ہے
مگر ہاتھ نہیں آتی
ہیر رانجھ لیلہ مجنون
اور سوہنی مہیوال
اِس محبت کے چکر میں
جو ہوئے تھے بے حال
بلھے شاہ وارث شاہ
اور کہی دانشور بھی
محبت کو جان نہیں پائے
اِس حقیقت کو پہچان نہیں پائے
اِسی اُلجھن میں اُلجھا نہال ہے
اُس کا بھی یہی سوال ہےآخر
یہ دہلیز کیا ہے؟
محبت چیز کیا ہے؟
محبت چیز کیا ہے؟
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






