محبت کا رستہ دکھایا کسی نے
مجھے غم کی سولی چڑھایا کسی نے
بنایا ہے دنیا سے بیگانہ مجھ کو
تڑپنا پھڑکنا سکھایا کسی نے
نہ ذوق تمنا، نہ تاب جدائی
مجھے ایسا بے خود بنایا کسی نے
نظر جم گئی ایک نقطہ پہ آ کر
جو چلمن سے جلوہ دکھایا کسی نے
مجھے سوز غم دے کے آنکھیں چرا لیں
مرا شوق دل آزمایا کسی نے
جھٹک کر ذرا روئے تاباں پہ زلفیں
عجب روز و شب کو ملایا کسی نے
تعامل، تغافل سے اور بے رخی سے
مری آرزو کو بڑھایا کسی نے
مجھے اپنے دیدار کی پیاس دے کر
نقاب اپنے رخ پر گرایا کسی نے
گلستاں میں تھا جب شباب بہاراں
مرا آشیانہ جلایا کسی نے
خدا کے سواکون فریاد رس ہے ؟
مجھے اس قدر ہے ستایا کسی نے
یہ سر خوش جو پھولا نہیں ہے سماتا
سر بزم شاید بلایا کسی نے