کیا ہے محبت کو بدنام ایسے
لٹے ہے گهر بار جیسے
یہ باغوں کی روشوں پر ٹہلن
یہ ریسٹورنٹوں کی ملاقاتیں
یہ فون پر لمبی لمبی باتیں
یہ سراب ہیں محض سارے
محبت کرنے والے ایسے نہیں ہوتے
یہ تو وه قبیل ہے جو وضو کرکے محبت کا نام لیتے ہیں
محبوب کی چادر میلی نہ ہو
اس کا دھیان رکھتے ہیں
ان کا عشق وصل کا محتاج نہیں
یہ ہجر کی آگ کو ہی انعام پاتے ہیں
محبت کرنے والے کچھ ایسے ہی نادان ہوتے ہیں
ان کی آنکھوں میں ہوس کے پنچھی نہیں پهڑپهڑاتے
یہ اپنے محبوب کی عزت کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں
جلتے ہیں شمع کے گرد پر شکایت سرعام نہیں کرتے
رہتی ہیں آنکھیں اکثر شب بیداری سے سرخ
کوئی پوچھے تو تنکے کو ہی الزام دیتے ہیں
محبت کو سر بازار نیلام نہیں کرتے
محبت کرنے والے کچھ ایسے نادان ہوتے ہیں