محبت کس کو کہتے ہیں
Poet: ایم آر چشتی By: M R Chishti, Muzaffarpurمحبت دائمی شے ہے
محبت تو ازل سے اس جہاں پہ راج کرتی ہے
محبت دل کی راہوں سے حیا بن کر گزرتی ہے
محبت زندگی ہے
محبت روشنی ہے
کبھی یہ مسکرائے تو چمن میں پھول کھلتے ہیں
محبت غمزدہ ہو تو نظارے آہ بھرتے ہیں
محبت کیا ہے اک معصوم بچے کی شرارت ہے
محبت کیا ہے ہر ذی روح کی پہلی ضرورت ہے
محبت داستاں بھی ہے
محبت اک جہاں بھی ہے
محبت بے یقینی میں گزارہ کر نہیں سکتی
محبت ٹوٹ سکتی ہے محبت مر نہیں سکتی
محبت کیا ہے یہ بھیگی ہوئ آنکھوں کا پانی ہے
محبت کیا ہے، جو نا ختم ہو ایسی کہانی ہے
محبت ایک دیوی ہے
جو انسانوں میں بستی ہے
محبت خواب بن کر اپنے دیوانوں میں بستی ہے
محبت کا گزر ہوتا ہے دل کے سبزہ زاروں سے
محبت خوف کھاتی ہے کہاں اونچے پہاڑوں سے
محبت ایک جذبہ ہے
محبت ایک رشتہ ہے
محبت چاند کی ہےچاندنی
پھولوں کی رعنائی
محبت کو مگر راس آتی ہے صدیوں سے تنہائی
محبت عاشقوں کی ضد
محبت اک دلاسہ ہے
محبت قیمتی شئے ہے
محبت خود ہی کاسہ ہے
محبت گلشن ہستی کی کلیوں کا تبسم ہے
محبت درد کا نغمہ ہے خوشیوں کا ترنم ہے
محبت وہ ہے اس دہر میں جینا سکھاتی ہے
محبت وہ ہے جو حیوان کو انساں بناتی ہے
محبت جسم کی طاقت
محبت روح کی لذت
محبت رب کی اک نعمت
محبت ان کہی حسرت
محبت چاہتی ہے وہ نگاہوں میں بسائ جائے
محبت چاہتی ہے دل کی دنیا میں سجائ جائے
محبت کو ہے نفرت شک سے اور شکوہ شکایت سے
محبت کو ہے نفرت جھوٹ سے عیاری سے بغض و عداوت سے
محبت جس کے آگے بات دنیا کی نہیں چلتی
محبت کے جہاں میں کوئی چالاکی نہیں چلتی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






