محبت کی اپنی الگ ہی زباں ہے
محبت سے کرد مندی اگر مشروط ہوتی تو
نہ مجنوں دشت میں جاتا
نہ کوئی کوہکن عشرت گہ خسرو سجانے کو
کبھی تیشہ اٹھاتا اور
نہ کوئی سوہنی کچے گھڑے پہ پار کرتی
چڑھتے دریا کو
نہ تم برباد کرتے اس طرح میری تمنا کو
نہ میں الزام دیتا اپنی ناکامی پہ دنیا کو
محبت سے خرد مندی اگر مشروط ہوتی تو