محبت کے رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے محفل میں
بڑی مُدت کے بعد غم سُنایا ہے محفل میں
تھا غم دینے والا بھی موجود وہاں مرے یارو
ہے بے قصور میں نے یقین دِلایا ہے محفل میں
بد نام نہیں کرنا چاہتا میں اُسے سریام اِس لئے
گِرتے آنسوئوں کو پلکوں میں چھپایا ہے محفل میں
نظروں سے پینے والوں کو نشہ کب ہوتا ہے بوتل سے
جان بُوج کے حال اپنا مدہوش بنایا ہے محفل میں
کھڑا ہے وہ رقیبوں کے درمیان مسکراتا ہوا
آج بھی اُس نے مرا دل جلایا ہے محفل میں
کامیاب ہوں میں ہر زندگی کے کھیل میں
عشق میں مرے ساتھی نے مجھے ہرایا ہے محفل میں
بس کر نہال تماشا دیکھنے کے لئے ہی اُس نے
پھر سے تجھے یہاں بُلایا ہے محفل میں