وہ آگے روشنی ہے زندگی کے جام باقی ہیں
چلے آؤ اندھیروں کے ابھی انجام باقی ہیں
ابھی تک جن کی یادوں میں گھرا رہتا ہے دل اپنا
وہ جذبے آج بھی جاناں بروئے شام باقی ہیں
فقط اس ایک نکتے پر کہاں مرکوز جان و دل
محبت کے علاوہ بھی بہت سے کام باقی ہیں
جہاں صدیاں بیتائی ہیں تو یہ لمحات بھی جی لو
ابھی قدموں کو نہ روکو فقط دو گام باقی ہیں
کھرچ ڈالے ہتھیلی سے ستارے وقت نے تو کیا
یہ دیکھو ان لکیروں میں ہمارے نام باقی ہیں
اسی بارش نے صحراوں میں جل تھل کر دیا لیکن
جو تیری آس پر نکلے وہ تشنہ کام باقی ہیں
کہاں اب روکنے پائے پر پرواز کو عالم
بچھا دے راستے میں جو کسی کے دام باقی ہیں
کہیں گے آندھیوں سے پھول کو رہنے دو ٹہنی پر
کہ اسکے پاک دامن پر بہت الزام باقی ہیں
نہیں گرنے لگا دو گھونٹ میں ظرف شناسائی
ہمیں معلوم ہے ساقی ترے انعام باقی ہیں