زمانے سے سُنا تھا کہ محبت ہار جاتی ہے
جو چاہت یک طرفہ ہو،وہ چاہت ہار جاتی ہے
کہیں پر دعا کا اک لفظ بھی اثر کر جاتا ہے
کہیں برسوں کی عبادت ہار جاتی ہے
محبت کب کسی کو دشمنی کا درس دیتی ہے
محبت کی بازی میں عداوت ہار جاتی ہے
بھلے کتنے بھی شکوے ہوں ہمیں اس کی جفاؤں سے
پر اس کے سامنے ہر اک شکایت ہار جاتی ہے
اک آرزو سی ہے کہ اُس کو بھول جائیں ہم
پر اُس کے یاد آتے ہی یہ حسرت ہار جاتی ہے