محبتوں کو کون آخرش نظر لگا گیا
کہ دل میں رہنے والا بھی ہے چھوڑ کر چلا گیا
یہ غم نہیں کہ چھوڑ کر وہ کیوں مجھے چلا گیا
یہ غم ہے جلنے کیلۓ محبتیں سکھا گیا
کہ بعد اس کے زندگی اجڑتی ہی چلی گئی
وہ شادمان زندگی کو عیب سا لگا گیا
مجھے سنبھالو دوستو میں بچ گیا ہوں یا نہیں
وہ سنگدل جو خواب میں ہے آنکھ پھر ملا گیا
اسے تو تھا غرور کے تجھے بھلا دکھاؤں گا
پھر آج کیوں مری ہی قبر پر دیا جلا گیا
کہ ویسے تو ہوں یارو میں بھی کم سخن سا آدمی
مگر غزل یوں ہو گئی کہ یاد یار آ گیا
میں باقرؔ اور بنتا اس سے بڑھ کے خوش نصیب کیا
کہ بعد مرگ بھی مرے کلام کو پڑھا گیا