ہے میری سوچ پہ چھایا خمار واقعی
سزا مجھے کوئی دیجے قرار واقعی
اور تو اور میری اور بھی دیکھا اسنے
بڑی بے لوث ہے ابکے بہار واقعی
آپ اس وصل کی بابت درست کہتے تھے
چھٹ گیا روح کا سارا غبار واقعی
دیکھ کر حال میرا حسن کا ارشاد ہوا
تیر تو ہو گیا سینے کے پار واقعی
ابھی مے میز ہواؤں نے کی ہے سرگوشی
وہ کر رہا ہے تیرا انتظار واقعی
آپ سمجھا کئے گفتار کے غازی جن کو
سربکف ہونے چلے ہیں نثار واقعی
غم فردا غم امروز غم راہ وفا
نہیں ہے میرے غموں کا شمار واقعی
خلا میں پھر رہی تھی آج سرکشی اسکی
نہیں ہے شوق پہ کچھ اختیار واقعی
تمہارے روپ پہ بکھری شفق سے جانا ہے
خلوص لاتا ہے رخ پر نکھار واقعی
مجھے بتایا بڑے ناز سے مقتل کا پتہ
کیا ہے آپ نے کچھ اعتبار واقعی
مقام و نسب ،زر و مال سبھی پیش نظر
محبتیں بھی ہیں اب کاروبار واقعی
ہزار بار گئے پل کو پکڑنا چاہا
مڑی نہیں ہے سمے کی مہار واقعی
میں چلا آیا ہوں سچ بول کے با ہوش و خرد
یقین کیجئے دلکش ہے دار واقعی