محرک خیال مجھے اُکسانے آتے ہیں
اور کچھ حشر تیرے بہانے آتے ہیں
تجھ سے بچھڑ کر بھولا کہ نہیں؟
یہاں لوگ اکثر آزمانے آتے ہیں
کس الجھن کو پھر دل سے باز رکھتا
عبث یہ احساس ویسے ستانے آتے ہیں
یہ مقدم نہیں کہ جام جذب کو ہے
تیرے وعدے اور نشہ بہکانے آتے ہیں
طرز انداز پہ کہیں کہیں آنکھ ٹھہری
کچھ منظر تو دل بہلانے آتے ہیں
اتنے ضابطہ پرست نہ رہا کرو سنتوشؔ
تجھ پر بھی کہیں زمانے آتے ہیں